EN हिंदी
دھپ شیاری | شیح شیری

دھپ

32 شیر

ہم فقیروں کا پیرہن ہے دھوپ
اور یہ رات اپنی چادر ہے

عابد ودود




میں بارشوں میں بہت بھیگتا رہا عابدؔ
سلگتی دھوپ میں اک چھت بہت ضروری ہے

عابد ودود




جہاں ڈالے تھے اس نے دھوپ میں کپڑے سکھانے کو
ٹپکتی ہیں ابھی تک رسیاں آہستہ آہستہ

احمد مشتاق




کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے

احمد مشتاق




میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

احمد مشتاق




ترے آنے کا دن ہے تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دھوپ میں سائے اکٹھے کر رہا ہوں میں

احمد مشتاق




بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ
چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا

احمد ضیا