پیار کیا تھا تم سے میں نے اب احسان جتانا کیا
خواب ہوئیں وہ پیار کی باتیں باتوں کو دہرانا کیا
راہ وفا ہے ہم سفرو پر عزم رہو ہاں تیز چلو
چار قدم پہ منزل ہے اب راہ سے واپس جانا کیا
سنگ زنی و طعنہ زنی اس دور کا شیوہ ہے یارو
اپنے دل میں کھوٹ نہیں جب دنیا سے گھبرانا کیا
مے خانے میں دور چلے میں اک اک بوند کو ترسا ہوں
ساقی بھی ہے میری نظر میں شیشہ کیا پیمانہ کیا
میرے دل کو توڑ کے آخر کیا کھویا کیا پایا ہے
شہر صنم میں رہنے والو شیشے سے ٹکرانا کیا
بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ
چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا
غزل
پیار کیا تھا تم سے میں نے اب احسان جتانا کیا
احمد ضیا