EN हिंदी
ڈار باری شیاری | شیح شیری

ڈار باری

12 شیر

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر

stayed away from home, on being so gentrified
spent ones life in hotels, in hospitals then died

اکبر الہ آبادی




تم راہ میں چپ چاپ کھڑے ہو تو گئے ہو
کس کس کو بتاؤگے کہ گھر کیوں نہیں جاتے

امیر قزلباش




گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف




ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے

افتخار عارف




کوئی قریہ کوئی دیار ہو کہیں ہم اکیلے نہیں رہے
تری جستجو میں جہاں گئے وہیں ساتھ در بدری رہی

الیاس عشقی




کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا

جگر مراد آبادی




شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے

نصیر ترابی