ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
stayed away from home, on being so gentrified
spent ones life in hotels, in hospitals then died
اکبر الہ آبادی
تم راہ میں چپ چاپ کھڑے ہو تو گئے ہو
کس کس کو بتاؤگے کہ گھر کیوں نہیں جاتے
امیر قزلباش
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف
ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذاب دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے
افتخار عارف
کوئی قریہ کوئی دیار ہو کہیں ہم اکیلے نہیں رہے
تری جستجو میں جہاں گئے وہیں ساتھ در بدری رہی
الیاس عشقی
کوچۂ عشق میں نکل آیا
جس کو خانہ خراب ہونا تھا
جگر مراد آبادی
شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے
اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے
نصیر ترابی