EN हिंदी
یہ بہار وہ ہے جہاں رہی اثر خزاں سے بری رہی | شیح شیری
ye bahaar wo hai jahan rahi asar-e-KHizan se bari rahi

غزل

یہ بہار وہ ہے جہاں رہی اثر خزاں سے بری رہی

الیاس عشقی

;

یہ بہار وہ ہے جہاں رہی اثر خزاں سے بری رہی
جو صلیب و دار میں ڈھل گئی وہی چوب خشک ہری رہی

ملی جب کبھی خبر جہاں تو جہاں سے بے خبری رہی
کسی اور سے نہیں کچھ گلہ خجل اپنی دیدہ وری رہی

وہی اک خرابیٔ بے کراں جو ترے جہاں کا نصیب ہے
اسی رست و خیز سے آج تک مرے دل میں بے خطری رہی

مری زندگی کی عروس نو تجھے اس کی کوئی خبر بھی ہے
وہ تھی کس کی سرخیٔ خون دل تری مانگ میں جو بھری رہی

کوئی قریہ کوئی دیار ہو کہیں ہم اکیلے نہیں رہے
تری جستجو میں جہاں گئے وہیں ساتھ در بدری رہی

وہی آگ اپنا نصیب تھی کہ تمام عمر جلا کیے
جو لگائی تھی کبھی عشق نے وہی آگ دل میں بھری رہی

وہی اک صداقت حرف تھی کھلی پھول بن کے جو آگ میں
وہی اک دلیل حیات تھی جو گواہ با خبری رہی

نہ اثر فسوں کوئی کر سکا نہ وہ میرے دل میں اتر سکا
کوئی عکس ہی نہ ابھر سکا رہا شیشہ اور نہ پری رہی

میں ہلاک لذت گفتگو ہی سہی مگر اسے کیا کروں
جو فراز دار سے کی گئی وہی ایک بات کھری رہی

ہنر آج عشقیؔ بے نوا کا خجل ہے روح سراجؔ سے
وہی اک خلش جو متاع فن تھی ثبوت بے ہنری رہی