ایسی پیاس اور ایسا صبر
دریا پانی پانی ہے
وکاس شرما راز
اثر ہے یہ ہماری دستکوں کا
جہاں دیوار تھی در ہو گیا ہے
وکاس شرما راز
بلا کا حبس تھا پر نیند ٹوٹتی ہی نہ تھی
نہ کوئی در نہ دریچہ فصیل خواب میں تھا
وکاس شرما راز
دشت کی خاک بھی چھانی ہے
گھر سی کہاں ویرانی ہے
وکاس شرما راز
دیکھنا چاہتا ہوں گم ہو کر
کیا کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
وکاس شرما راز
دیکھنا چاہتا ہوں گم ہو کر
کیا کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
وکاس شرما راز
ایک برس اور بیت گیا
کب تک خاک اڑانی ہے
وکاس شرما راز
ایک کرن پھر مجھ کو واپس کھینچ گئی
میں بس جسم سے باہر آنے والا تھا
وکاس شرما راز
فقط زنجیر بدلی جا رہی تھی
میں سمجھا تھا رہائی ہو گئی ہے
وکاس شرما راز