کوئی اس کے برابر ہو گیا ہے
یہ سنتے ہی وہ پتھر ہو گیا ہے
جدائی کا ہمیں امکان تو تھا
مگر اب دن مقرر ہو گیا ہے
سبھی حیرت سے مجھ کو تک رہے ہیں
یہ کیا تحریر مجھ پر ہو گیا ہے
اثر ہے یہ ہماری دستکوں کا
جہاں دیوار تھی در ہو گیا ہے
جسے دیکھو غزل پہنے ہوئے ہے
بہت سستا یہ زیور وہ گیا ہے
غزل
کوئی اس کے برابر ہو گیا ہے
وکاس شرما راز