اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا
وہی پڑھایا گیا مجھ کو جو نصاب میں تھا
وہی تو دن تھے اجالوں کے پھول چننے کے
انہیں دنوں میں اندھیروں کے انتخاب میں تھا
بس اتنا یاد ہے کوئی بگولا اٹھا تھا
پھر اس کے بعد میں صحرائے اضطراب میں تھا
مری عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
مرے زوال کا قصہ بھی اس کتاب میں تھا
بلا کا حبس تھا پر نیند ٹوٹتی ہی نہ تھی
نہ کوئی در نہ دریچہ فصیل خواب میں تھا
بس ایک بوند کے گرتے ہی ہو گیا آزاد
وہ ہفت رنگ اجالا جو مجھ حباب میں تھا
غزل
اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا
وکاس شرما راز