آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں
آج دل کے نگر سے گزرے ہیں
سید عابد علی عابد
اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے
مرنے کا ہے مقام یا جینے کا محل
سید عابد علی عابد
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
سید عابد علی عابد
در اخلاص کی دہلیز پر خم ہوں عابدؔ
ایک جینے کا سلیقہ دل بیباک میں ہے
سید عابد علی عابد
غم کے تاریک افق پر عابدؔ
کچھ ستارے سر مژگاں گزرے
سید عابد علی عابد
غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا
سید عابد علی عابد
اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا
تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں
سید عابد علی عابد
عشق کی طرز تکلم وہی چپ ہے کہ جو تھی
لب خوش گوئے ہوس محو بیاں ہے کہ جو تھا
سید عابد علی عابد
جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے
شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا
سید عابد علی عابد