غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
وصف خوباں بہ حدیث دگراں ہے کہ جو تھا
لذت عرض وفا راحت جاں ہے کہ جو تھی
دل تپاں اشک رواں شوق جواں ہے کہ جو تھا
شرع و آئین کی تعزیر کے با وصف شباب
لب و رخسار کی جانب نگراں ہے کہ جو تھا
میرے پاؤں سے ہیں الجھے ہوئے ریشم کے سے تار
ہمدمو یہ تو وہی بند گراں ہے کہ جو تھا
عشق کی طرز تکلم وہی چپ ہے کہ جو تھی
لب خوش گوئے ہوس محو بیاں ہے کہ جو تھا
راہرو دشت میں فریاد کناں ہیں کہ جو تھا
خندہ زن قافلہ راہ براں ہے کہ جو تھا
مغبچے خوش ہیں کہ بزم ان کی ہے ساقی ان کا
بر سر کار وہی پیر مغاں ہے کہ جو تھا
جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے
شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا
حلقۂ وعظ سے اب تک ہے گریزاں دنیا
حلقۂ زلف مدار دو جہاں ہے کہ جو تھا
میرے ہنسنے پہ خفا تھے مرے رونے پہ ہنسے
وہی رنگ ستم عشوہ گراں ہے کہ جو تھا
سنگ طفلاں سے ذرا بچ کے رہے قصر بلند
یہ وہی کار گہ شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
دوستو ہم نفسو سنتے ہو عابدؔ کی غزل
یہ وہی شعلہ نوا سوختہ جاں ہے کہ جو تھا
غزل
غم دوراں غم جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
سید عابد علی عابد