نغمہ ایسا بھی مرے سینۂ صد چاک میں ہے
خوف سے حشر بپا گنبد افلاک میں ہے
اے جنوں چل خم گیسو کی طرف دل تو ابھی
عالم خواب میں آداب کے پیچاک میں ہے
وہ قفس ہو کہ نشیمن ہو پنہ گاہ نہیں
طائرو نغمہ گرو برق بلا تاک میں ہے
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے
یہ تصور ہے ابھی عرش ابھی فرش پہ تھا
رنگ و نیرنگ اسی توسن چالاک میں ہے
کیا بنے صورت اظہار معانی کہ خیال
ابھی الجھا ہوا الفاظ کے پیچاک میں ہے
در اخلاص کی دہلیز پر خم ہوں عابدؔ
ایک جینے کا سلیقہ دل بیباک میں ہے
غزل
نغمہ ایسا بھی مرے سینۂ صد چاک میں ہے
سید عابد علی عابد