سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں
وہ نہ جانے کدھر سے گزرے ہیں
موج آواز پائے یار کے ساتھ
نغمے دیوار و در سے گزرے ہیں
آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں
آج دل کے نگر سے گزرے ہیں
گھر کے گوشے میں تھے کہیں پنہاں
جتنے سیلاب گھر سے گزرے ہیں
زلف کے خم ہوں یا جہان کے غم
مر مٹے ہم جدھر سے گزرے ہیں
صدف تہ نشیں بھی کانپ گیا
کیسے طوفان سر سے گزرے ہیں
باغ شاداب موج گل ہی نہیں
سیل خوں بھی ادھر سے گزرے ہیں
جب چڑھی ہے کماں کہیں عابدؔ
تیرے میرے جگر سے گزرے ہیں
غزل
سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں
سید عابد علی عابد