EN हिंदी
چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں | شیح شیری
chand sitaron se kya puchhun kab din mere phirte hain

غزل

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں

سید عابد علی عابد

;

چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
وہ تو بچارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں

جن گلیوں میں ہم نے سکھ کی سیج پہ راتیں کاٹی تھیں
ان گلیوں میں بیاکل ہو کر سانجھ سویرے پھرتے ہیں

روپ سروپ کی جوت جگانا اس نگری میں جوکھم ہے
چاروں کھونٹ بگولے بن کر گھور اندھیرے پھرتے ہیں

جن کے شیام برن سائے میں میرا من سستایا تھا
اب تک آنکھوں کے آگے وہ بال گھنیرے پھرتے ہیں

کوئی ہمیں بھی یہ سمجھا دو ان پر دل کیوں ریجھ گیا
دیکھی چتون بانکی چھب والے بہتیرے پھرتے ہیں

اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا
تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں

اس نگری کے باغ اور من کی یارو لیلیٰ نیاری ہے
پنچھی اپنے سر پہ اٹھا کر اپنے بسیرے پھرتے ہیں

لوگ تو دامن سی لیتے ہیں جیسے ہو جی لیتے ہیں
عابدؔ ہم دیوانے ہیں جو بال بکھیرے پھرتے ہیں