EN हिंदी
صدیق مجیبی شیاری | شیح شیری

صدیق مجیبی شیر

8 شیر

ایک بے چین سمندر ہے مرے جسم میں قید
ٹوٹ جائے جو یہ دیوار تو منظر دیکھوں

صدیق مجیبی




ہمارے نام لکھی جا چکی تھی رسوائی
ہمیں تو ہونا تھا یوں بھی خراب چاروں طرف

صدیق مجیبی




اک لہو کی بوند تھی لیکن کئی آنکھوں میں تھی
ایک حرف معتبر تھا اور کئی معنوں میں تھا

صدیق مجیبی




خود پہ کیا بیت گئی اتنے دنوں میں تجھ بن
یہ بھی ہمت نہیں اب جھانک کے اندر دیکھوں

صدیق مجیبی




میں نے ہنسنے کی اذیت جھیل لی رویا نہیں
یہ سلیقہ بھی کوئی آسان جینے کا نہ تھا

صدیق مجیبی




میں وہ ٹوٹا ہوا تارا جسے محفل نہ راس آئی
میں وہ شعلہ جو شب بھر آنکھ کے پانی میں رہتا ہے

صدیق مجیبی




ناخدا ہو کہ خدا دیکھتے رہ جاتے ہیں
کشتیاں ڈوبتی ہیں اس کے مکیں ڈوبتے ہیں

صدیق مجیبی




اٹھے ہیں ہاتھ تو اپنے کرم کی لاج بچا
وگرنہ میری دعا کیا مری طلب کیا ہے

صدیق مجیبی