عجب پاگل ہے دل کار جہاں بانی میں رہتا ہے
خدا جب دیکھتا ہے خود بھی حیرانی میں رہتا ہے
میں وہ ٹوٹا ہوا تارا جسے محفل نہ راس آئی
میں وہ شعلہ جو شب بھر آنکھ کے پانی میں رہتا ہے
کوئی ایسا نہیں ملتا جو مجھ میں ڈوب کر دیکھے
مرے غم کو جو میرے دل کی ویرانی میں رہتا ہے
ہزاروں بجلیاں ٹوٹیں نشیمن بھی جلا لیکن
کوئی تو ہے جو اس گھر کی نگہبانی میں رہتا ہے
خدا اور ناخدا دونوں خجل ہیں حال پر میرے
میں وہ تنکا ہوں جو آغوش طغیانی میں رہتا ہے
رموز مملکت یا رب خرد سمجھے یا تو جانے
جنوں میرا تو شوق چاک دامانی میں رہتا ہے
غزل لکھنے سے کیا ہوگا مجیبیؔ کچھ قصیدے لکھ
شرف سنتے ہیں اب طرز ثنا خوانی میں رہتا ہے
غزل
عجب پاگل ہے دل کار جہاں بانی میں رہتا ہے
صدیق مجیبی