آرزو جینے کی تھی امکان جینے کا نہ تھا
خواہشیں تھیں صف بہ صف سامان جینے کا نہ تھا
قرض تھا تیرا سو جیتے جی تجھے لوٹا دیا
زندگی ورنہ مجھے ارمان جینے کا نہ تھا
دوستی زہراب سے کی رنج و غم سے کی نباہ
ورنہ یہ ماحول میری جان جینے کا نہ تھا
زندگی تو چھوڑ میرا ساتھ میں بے زار ہوں
میرا تیرا تو کوئی پیمان جینے کا نہ تھا
میں نے ہنسنے کی اذیت جھیل لی رویا نہیں
یہ سلیقہ بھی کوئی آسان جینے کا نہ تھا
کچھ تری رحمت پہ تکیہ کچھ گناہوں کی کشش
ورنہ اس دنیا میں تو انسان جینے کا نہ تھا
ذہن کی آوارگی منت کش دنیا نہ تھی
زندگی کا بھی مجیبیؔ دھیان جینے کا نہ تھا
غزل
آرزو جینے کی تھی امکان جینے کا نہ تھا
صدیق مجیبی