نہ کوئی نقش نہ پیکر سراب چاروں طرف
تمام دشت اسیر عذاب چاروں طرف
مسیح وقت اب آئے تو بس خدا آئے
پیمبروں کی زمیں اور عذاب چاروں طرف
میں بیچوں بیچ کھڑا ہوں سلگتے جنگل میں
حصار باندھے ہوئے آفتاب چاروں طرف
ہمارے نام لکھی جا چکی تھی رسوائی
ہمیں تو ہونا تھا یوں بھی خراب چاروں طرف
فصیل درد سے یادوں کی دھوپ ڈھلتی ہوئی
بکھرتے ٹوٹتے رنگوں کا خواب چاروں طرف
مجیبیؔ کم نہیں فکریؔ کی دوستی کی پناہ
اگرچہ دشمن جاں بے حساب چاروں طرف

غزل
نہ کوئی نقش نہ پیکر سراب چاروں طرف
صدیق مجیبی