آگ دیکھوں کبھی جلتا ہوا بستر دیکھوں
رات آئے تو یہیں خواب مکرر دیکھوں
ایک بے چین سمندر ہے مرے جسم میں قید
ٹوٹ جائے جو یہ دیوار تو منظر دیکھوں
رات گہری ہے بہت راز نہ دے گی اپنا
میں تو سورج بھی نہیں ہوں کہ اتر کر دیکھوں
خود پہ کیا بیت گئی اتنے دنوں میں تجھ بن
یہ بھی ہمت نہیں اب جھانک کے اندر دیکھوں
کوئی اس دور میں اعلان نبوت کرتا
آرزو تھی کہ خدا ساز پیمبر دیکھوں
ایک سناٹا ہوں پتھر کے جگر میں پیوست
میں کوئی بت تو نہیں ہوں کہ نکل کر دیکھوں
یوں نشے سے کبھی دو چار ترا غم ہو کہ میں
بند آنکھوں سے کھلی آنکھ کا منظر دیکھوں
اوڑھ کر خاک مجیبیؔ سنوں دشنام جہاں
یہ تماشا ہی کسی روز میاں کر دیکھوں
غزل
آگ دیکھوں کبھی جلتا ہوا بستر دیکھوں
صدیق مجیبی