EN हिंदी
بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا | شیح شیری
be-karan samjha tha KHud ko kaise na-danon mein tha

غزل

بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا

صدیق مجیبی

;

بے کراں سمجھا تھا خود کو کیسے نادانوں میں تھا
آسماں بکھرا تو ہر سو شبنمی دانوں میں تھا

میں نے جس زینے پہ رکھا پا تو مجھ کو ڈس گیا
جب بھی دانہ میں نے پھینکا سانپ کے خانوں میں تھا

پھر کوئی موج بلا کیسے مرا سر لے گئی
اے خدا میرے خدا تو بھی نگہبانوں میں تھا

اک لہو کی بوند تھی لیکن کئی آنکھوں میں تھی
ایک حرف معتبر تھا اور کئی معنوں میں تھا

سوچتے ہیں کس طرح اس شہر میں جیتے رہے
آستیں میں سانپ تھے اور زہر پیمانوں میں تھا

جانے کیسی تھی مجیبیؔ آگ اس کے لمس کی
جسم کا سونا پگھل کر سب مری رانوں میں تھا