نہ پوچھ مرگ شناسائی کا سبب کیا ہے
کبھی ہمیں تھا تعلق سبھوں سے اب کیا ہے
جہاں سکوت مسلط ہے دم بخود ہے حیات
وہیں سے شور قیامت اٹھے عجب کیا ہے
جو ذہن ہی میں سیاہی انڈیل دے سورج
تو پھر تمیز کسے صبح کیا ہے شب کیا ہے
جنم دیا ہے دکھوں نے غموں نے پالا ہے
خدا سے پوچھئے میرا حسب نسب کیا ہے
وہ زہر خند جو گھولے ہیں چشم و لب نے ترے
تجھے خوشی ہو تو پوچھیں کہ زیر لب کیا ہے
اٹھے ہیں ہاتھ تو اپنے کرم کی لاج بچا
وگرنہ میری دعا کیا مری طلب کیا ہے

غزل
نہ پوچھ مرگ شناسائی کا سبب کیا ہے
صدیق مجیبی