EN हिंदी
سحر عشق آبادی شیاری | شیح شیری

سحر عشق آبادی شیر

7 شیر

آہ کرتا ہوں تو آتی ہے پلٹ کر یہ صدا
عاشقوں کے واسطے باب اثر کھلتا نہیں

سحر عشق آبادی




ایک ہم ہیں رات بھر کروٹ بدلتے ہی کٹی
ایک وہ ہیں دن چڑھے تک جن کا در کھلتا نہیں

سحر عشق آبادی




گزرنے کو تو گزرے جا رہے ہیں راہ ہستی سے
مگر ہے کارواں اپنا نہ میر کارواں اپنا

سحر عشق آبادی




حسن کا ہر خیال روشن ہے
عشق کا مدعا کسے معلوم

سحر عشق آبادی




پہلی سی لذتیں نہیں اب درد عشق میں
کیوں دل کو میں نے ظلم کا خوگر بنا دیا

سحر عشق آبادی




تیری جفا وفا سہی میری وفا جفا سہی
خون کسی کا بھی نہیں تو یہ بتا ہے کیا شفق

سحر عشق آبادی




وہ درد ہے کہ درد سراپا بنا دیا
میں وہ مریض ہوں جسے عیسیٰ بھی چھوڑ دے

سحر عشق آبادی