EN हिंदी
فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا | شیح شیری
farishte bhi pahunch sakte nahin wo hai makan apna

غزل

فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا

سحر عشق آبادی

;

فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا
ٹھکانا ڈھونڈے دور زمیں و آسماں اپنا

خدا جبار ہے ہر بندہ بھی مجبور و تابع ہے
دو عالم میں نظر آیا نہ کوئی مہرباں اپنا

نگاہ مضطرب پھر ڈھونڈتی ہے کس کو ہر شے میں
زمین اپنی عزیز اپنے خدائے دو جہاں اپنا

گزرنے کو تو گزرے جا رہے ہیں راہ ہستی سے
مگر ہے کارواں اپنا نہ میر کارواں اپنا

نہ وہ پرواز کی قوت نہ وہ دل کی امنگ اب ہے
ہوئی مدت چمن چھوٹے قفس ہے آشیاں اپنا

پہیلی خود تھی ہستی عشق نے کچھ اور الجھائی
کوئی اے سحرؔ کیا سمجھے نہیں میں رازداں اپنا