فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا
ٹھکانا ڈھونڈے دور زمیں و آسماں اپنا
خدا جبار ہے ہر بندہ بھی مجبور و تابع ہے
دو عالم میں نظر آیا نہ کوئی مہرباں اپنا
نگاہ مضطرب پھر ڈھونڈتی ہے کس کو ہر شے میں
زمین اپنی عزیز اپنے خدائے دو جہاں اپنا
گزرنے کو تو گزرے جا رہے ہیں راہ ہستی سے
مگر ہے کارواں اپنا نہ میر کارواں اپنا
نہ وہ پرواز کی قوت نہ وہ دل کی امنگ اب ہے
ہوئی مدت چمن چھوٹے قفس ہے آشیاں اپنا
پہیلی خود تھی ہستی عشق نے کچھ اور الجھائی
کوئی اے سحرؔ کیا سمجھے نہیں میں رازداں اپنا
غزل
فرشتے بھی پہنچ سکتے نہیں وہ ہے مکاں اپنا
سحر عشق آبادی