EN हिंदी
جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق | شیح شیری
jis se wafa ki thi ummid usne ada kiya ye haq

غزل

جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق

سحر عشق آبادی

;

جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق
اوروں سے ارتباط کی اور مجھے دیا قلق

تیری جفا وفا سہی میری وفا جفا سہی
خون کسی کا بھی نہیں تو یہ بتا ہے کیا شفق

مصحف رخ ہی درد تھا اور نہ تھا کوئی خیال
عشق نے خود پڑھا دیا حسن کا ایک اک ورق

اور تو ہیں روایتیں مذہب عشق ہے صحیح
روز عطا ہو شوق سے وہی نئی نیا سبق

جذبۂ دل غلط سہی کچھ تو ثبوت عشق دیکھ
تفتہ جگر حواس گم خیرہ نظر کلیجہ شق

سحرؔ تو مجتہد ہے خود کیوں ہو مقلد اور کا
بحر و ردیف و قافیہ ہے فن شاعری ادق