جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق
اوروں سے ارتباط کی اور مجھے دیا قلق
تیری جفا وفا سہی میری وفا جفا سہی
خون کسی کا بھی نہیں تو یہ بتا ہے کیا شفق
مصحف رخ ہی درد تھا اور نہ تھا کوئی خیال
عشق نے خود پڑھا دیا حسن کا ایک اک ورق
اور تو ہیں روایتیں مذہب عشق ہے صحیح
روز عطا ہو شوق سے وہی نئی نیا سبق
جذبۂ دل غلط سہی کچھ تو ثبوت عشق دیکھ
تفتہ جگر حواس گم خیرہ نظر کلیجہ شق
سحرؔ تو مجتہد ہے خود کیوں ہو مقلد اور کا
بحر و ردیف و قافیہ ہے فن شاعری ادق
غزل
جس سے وفا کی تھی امید اس نے ادا کیا یہ حق
سحر عشق آبادی