تکمیل عشق جب ہو کہ صحرا بھی چھوڑ دے
مجنوں خیال محمل لیلا بھی چھوڑ دے
کچھ اقتضائے دل سے نہیں عقل بے نیاز
تنہا یہ رہ سکے تو وہ تنہا بھی چھوڑ دے
یا دیکھ زاہد اس کو پس پردۂ مجاز
یا اعتبار دیدۂ بینا بھی چھوڑ دے
کچھ لطف دیکھنا ہے تو سودائے عشق میں
اے سرفروش سر کی تمنا بھی چھوڑ دے
وہ درد ہے کہ درد سراپا بنا دیا
میں وہ مریض ہوں جسے عیسیٰ بھی چھوڑ دے
آنکھیں نہیں جو قابل نظارۂ جمال
طالب سے کہہ دو ذوق تماشا بھی چھوڑ دے
ہے برق پاشیوں کا گلہ سحرؔ کو عبث
کیا اس کے واسطے کوئی ہنسنا بھی چھوڑ دے

غزل
تکمیل عشق جب ہو کہ صحرا بھی چھوڑ دے
سحر عشق آبادی