آسماں تو نے چھپا رکھا ہے سورج کو کہاں
کیوں کلائی میں تری بند گھڑی ہے اب بھی
سردار آصف
آتا رہا ہوں یاد میں اس کو تمام عمر
اس زاویے سے عشق میں ناکام کب ہوا
سردار آصف
غزل کہنے میں یوں تو کوئی دشواری نہیں ہوتی
مگر اک مسئلہ یہ ہے کہ معیاری نہیں ہوتی
سردار آصف
ہو لینے دو بارش ہم بھی رو لیں گے
دل میں ہیں کچھ زخم پرانے دھو لیں گے
سردار آصف
خط ہو کوئی کتاب ہو یا دل کا زخم ہو
جو بھی ہے میرے پاس نشانی اسی کی ہے
سردار آصف
خطا اس کی معافی سے بڑی ہے
میں کیا کرتا سزا دینی پڑی ہے
سردار آصف
کوئی شکوہ نہیں ہم کو کسی سے
خود اپنی ذات ہم کو چھل رہی ہے
سردار آصف
میں خود کو دیکھوں اگر دوسرے کی آنکھوں سے
ملیں گی خامیاں اپنے ہی شاہ کاروں میں
سردار آصف
میں تجھ سے جھک کے ملا ہوں مگر یہ دھیان رہے
بڑا نہیں ہوں مگر تجھ سے قد میں کم بھی نہیں
سردار آصف