لفظوں کا یہ خزانہ ترے نام کب ہوا
یہ شعر کب کہے تجھے الہام کب ہوا
یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھے دام کم ملے
چپکے سے بک گیا ہوں میں نیلام کب ہوا
کیسی شراب ہوں کہ ہے تشنہ مرے ہی لب
اپنے لئے میں درد تہ جام کب ہوا
یہ ہے مرا نصیب کہ شہرت نہیں ملی
لیکن کوئی بتائے کہ بد نام کب ہوا
آتا رہا ہوں یاد میں اس کو تمام عمر
اس زاویے سے عشق میں ناکام کب ہوا
وہ حادثے کہ ذہن ہی مفلوج ہو گئے
یہ بھی نہیں ہے یاد کہ کہرام کب ہوا
اب ہو رہا ہے ذکر مساوات ہر طرف
لوگوں کو علم ہے یہ چلن عام کب ہوا
غزل
لفظوں کا یہ خزانہ ترے نام کب ہوا
سردار آصف