میں جن کو ڈھونڈنے نکلا تھا گہرے غاروں میں
پتہ چلا کہ وہ رہتے ہیں اب ستاروں میں
پرکھ رہا ہے مجھے جو وہ اس خیال کا ہے
ہمیشہ جھوٹ نہیں ہوتا اشتہاروں میں
انہیں یقین تھا دنیا کی عمر لمبی ہے
جو لوگ پیڑ لگاتے تھے رہ گزاروں میں
میں خود کو دیکھوں اگر دوسرے کی آنکھوں سے
ملیں گی خامیاں اپنے ہی شاہ کاروں میں
تمہاری خوشبو کو مجھ سے کہیں یہ چھین نہ لے
ہوا جو رہتی ہے دیوار کی دراروں میں
خدا کا شکر کہ میں اس سے تھوڑی دور رہا
سفید سانپ تھا گیندے کے پیلے ہاروں میں
نشیلی رات کا نشہ کچھ اور بڑھ جاتا
ترا نظارا بھی ہوتا اگر نظاروں میں
زباں پہ آئی تو اپنی مٹھاس کھو بیٹھی
جو بات ہوتی تھی پہلے کبھی اشاروں میں

غزل
میں جن کو ڈھونڈنے نکلا تھا گہرے غاروں میں
سردار آصف