نہ جانے کیسی آندھی چل رہی ہے
ہے جنگل خوش کہ بستی جل رہی ہے
کہیں پانی سے دھوکا کھا نہ جانا
یہ ندی مدتوں دلدل رہی ہے
ترا سورج بھی ٹھنڈا ہو رہا ہے
ہماری عمر بھی اب ڈھل رہی ہے
کوئی شکوہ نہیں ہم کو کسی سے
خود اپنی ذات ہم کو چھل رہی ہے
ہمیں برباد کر کے خوش بہت تھی
مگر اب ہاتھ دنیا مل رہی ہے
تمہارے لفظ شعلے کیوں ہوئے ہیں
غزل لگتا ہے جیسے جل رہی ہے
غزل
نہ جانے کیسی آندھی چل رہی ہے
سردار آصف