ہو لینے دو بارش ہم بھی رو لیں گے
دل میں ہیں کچھ زخم پرانے دھو لیں گے
میرا اس بازار میں جانا ہے بے سود
میری انا کو وہ سکوں سے تولیں گے
جاتے ہیں سب اپنی اپنی ٹولی میں
اپنا کون ہے ساتھ کسی کے ہو لیں گے
اس کو شاید یاد ہماری آئے گی
ہوا چلے گی اور پرندے ڈولیں گے
سب چیخے چلائے کیا پڑتا ہے فرق
بے حس پتھر کبھی نہیں کچھ بولیں گے
خود ہی سمندر خود ہی دریا ڈر کیسا
جب چاہیں گے خود کو خود میں سمو لیں گے
دل کی دھڑکن بڑھی ہے سننے والوں کی
کس نے خبر اڑا دی ہم کچھ بولیں گے
غزل
ہو لینے دو بارش ہم بھی رو لیں گے
سردار آصف