لاکھ سمجھایا مگر ضد پہ اڑی ہے اب بھی
کوئی امید میرے پیچھے پڑی ہے اب بھی
شہر تنہائی میں موسم نہیں بدلا کرتے
دن بہت چھوٹا یہاں رات بڑی ہے اب بھی
مان لوں کیسے یہاں دریا نہیں تھا لوگو
دیکھ لو ریت پہ اک کشتی پڑی ہے اب بھی
چھت میں کچھ چھید ہیں یہ راز بتانے کے لئے
دھوپ خاموشی سے کمرے میں کھڑی ہے اب بھی
وقت نے نام و نسب چھین لیا ہے لیکن
غور سے دیکھ مری ناک بڑی ہے اب بھی
آسماں تو نے چھپا رکھا ہے سورج کو کہاں
کیوں کلائی میں تری بند گھڑی ہے اب بھی
منزلیں دیتی ہیں آواز کہ جلدی آؤ
پیڑ کہتے ہیں رکو دھوپ کڑی ہے اب بھی
غزل
لاکھ سمجھایا مگر ضد پہ اڑی ہے اب بھی
سردار آصف