چیزیں اپنی جگہ پہ رہتی ہیں
تیرگی بس انہیں چھپاتی ہے
سعید نقوی
ابتدا مجھ میں انتہا مجھ میں
اک مکمل ہے واقعہ مجھ میں
سعید نقوی
جب آئینے در و دیوار پر نکل آئیں
تو شہر ذات میں رہنا بھی اک قیامت ہے
سعید نقوی
کچھ لوگ تھے سفر میں مگر ہم زباں نہ تھے
ہے لطف گفتگو کا جو اپنی زباں میں ہو
سعید نقوی
میں اپنے سارے سوالوں کے جانتا ہوں جواب
مرا سوال مرے ذہن کی شرارت ہے
سعید نقوی
میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا
کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں
سعید نقوی
تو میری تشنہ لبی پر سوال کرتا ہے
سمندروں پہ بنایا تھا اپنا گھر میں نے
سعید نقوی
یہ خود نوشت تو مجھ کو ادھوری لگتی ہے
جو ہو سکے تو نیا انتساب مانگوں میں
سعید نقوی