ساعت ہجر جب ستاتی ہے
وقت کی نبض رک سی جاتی ہے
چیزیں اپنی جگہ پہ رہتی ہیں
تیرگی بس انہیں چھپاتی ہے
شور میں جو صدائیں دب جائیں
خامشی پھر وہی سناتی ہے
دھوپ کی آنچ ہے جو رات گئے
چاندنی بن کے مسکراتی ہے
حسن شاید اسی کو کہتے ہیں
جب نظر لوٹ لوٹ جاتی ہے
وہ مری جیت تیرے نام سے تھی
ہاں مگر ہار میری ذاتی ہے
چاند جب دھوپ میں نکلتا ہے
چاندنی کب نظر میں آتی ہے
خواب دیکھا ہو جن کی آنکھوں نے
صبح نو بس انہیں بلاتی ہے
غزل
ساعت ہجر جب ستاتی ہے
سعید نقوی