EN हिंदी
ابتدا مجھ میں انتہا مجھ میں | شیح شیری
ibtida mujh mein intiha mujh mein

غزل

ابتدا مجھ میں انتہا مجھ میں

سعید نقوی

;

ابتدا مجھ میں انتہا مجھ میں
اک مکمل ہے واقعہ مجھ میں

بھول بیٹھا میں پیکر خاکی
جب سے رہتا ہے اک خدا مجھ میں

میں نے مٹی سے خود کو باندھ لیا
جب بھری وقت نے ہوا مجھ میں

میرے چاروں طرف ہے سناٹا
ایسی گونجی ہے اک صدا مجھ میں

میں نے اشکوں پہ بند کیا باندھا
ایک سیلاب آ گیا مجھ میں

میری تنہائیوں میں آنے لگا
ڈھونڈ کر راستہ نیا مجھ میں

میں نے اس کی کبھی نہیں مانی
جو سدا بولتا رہا مجھ میں

ٹھہر جاتا ہے ہر پرندہ یہاں
ایک جنگل ہے یوں بسا مجھ میں

تو بھی سلگے گا اس میں ساری حیات
سوچ کر آگ یہ لگا مجھ میں

اس کا ہم زاد ساتھ رکھا سعیدؔ
جب کوئی شخص بھی مرا مجھ میں