EN हिंदी
صادق شیاری | شیح شیری

صادق شیر

7 شیر

اپنے گلے پہ چلتی چھری کا بھی دھیان رکھ
وہ تیز ہے یا کند ذرا دھار دیکھ لے

صادق




فرصت ہو تو یہ جسم بھی مٹی میں دبا دو
لو پھر میں زماں اور مکاں سے نکل آیا

صادق




گماں نہ تھا کہ لفافے میں خط کے بدلے وہ
لہو لہان تڑپتی زبان رکھ دے گا

صادق




اس گھومتی زمین کا محور ہی توڑ دو
بے کار گردشوں پہ خفا ہو رہے ہوں کیوں

صادق




کاٹ آگاہیوں کی فصل مگر
ذہن میں کچھ نئے سوال اگا

صادق




ان کی یاد میں بہتے آنسو خشک اگر ہو جائیں گے
سات سمندر اپنی خالی آنکھوں میں بھر لاؤں گا

صادق




اٹھا ہی لایا سبھی راستے وہ کاندھوں پر
یقین اس پہ نہ کرتا تو میں کدھر جاتا

صادق