وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا
تو آئینہ اسی دم ٹوٹ کر بکھر جاتا
نہ جانے کیسے بنی وہ زبان پتھر کی
وگرنہ ہم پہ قیامت سا کچھ گزر جاتا
اٹھا ہی لایا سبھی راستے وہ کاندھوں پر
یقین اس پہ نہ کرتا تو میں کدھر جاتا
دھنک کے رنگ اسی نے کھرچ لیے تھے مگر
جو ہم نہ دیکھتے اس بار بھی مگر جاتا
سفر کا انت لگا موت کی طرح ورنہ
پکارتی تھیں مجھے منزلیں ٹھہر جاتا
غزل
وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا
صادق