EN हिंदी
وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا | شیح شیری
wo ek chehra jo us se gurez kar jata

غزل

وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا

صادق

;

وہ ایک چہرہ جو اس سے گریز کر جاتا
تو آئینہ اسی دم ٹوٹ کر بکھر جاتا

نہ جانے کیسے بنی وہ زبان پتھر کی
وگرنہ ہم پہ قیامت سا کچھ گزر جاتا

اٹھا ہی لایا سبھی راستے وہ کاندھوں پر
یقین اس پہ نہ کرتا تو میں کدھر جاتا

دھنک کے رنگ اسی نے کھرچ لیے تھے مگر
جو ہم نہ دیکھتے اس بار بھی مگر جاتا

سفر کا انت لگا موت کی طرح ورنہ
پکارتی تھیں مجھے منزلیں ٹھہر جاتا