گرچہ سہل نہیں لیکن تیرے کہنے پر لاؤں گا
کاٹ کے اپنے ہاتھوں میں اب اپنا ہی سر لاؤں گا
جس میں ہوں تیار کھڑی ہر سمت سرابوں کی فصلیں
اپنے کندھوں پر وہ ریگستان اٹھا کر لاؤں گا
قوس قزح کے رنگوں سے تیار کروں گا نقش نیا
رہ جاؤ انگشت بدنداں ایسا منظر لاؤں گا
ان کی یاد میں بہتے آنسو خشک اگر ہو جائیں گے
سات سمندر اپنی خالی آنکھوں میں بھر لاؤں گا
جا پہنچوں گا تخت معلی تک اپنی فریاد لیے
دست خاص سے لکھوا کر اک نیا مقدر لاؤں گا
غزل
گرچہ سہل نہیں لیکن تیرے کہنے پر لاؤں گا
صادق