EN हिंदी
قمر مرادآبادی شیاری | شیح شیری

قمر مرادآبادی شیر

11 شیر

اب میں سمجھا ترے رخسار پہ تل کا مطلب
دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے

The import of this spot upon your face I now detect
The treasure of your beauty does this sentinel protect

قمر مرادآبادی




دیر و کعبہ سے جو ہو کر گزرے
دوست کی راہ گزر یاد آئی

قمر مرادآبادی




غم کی توہین نہ کر غم کی شکایت کر کے
دل رہے یا نہ رہے عظمت غم رہنے دے

belittle not these sorrows, of them do not complain
their glory be preserved, tho heart may not remain

قمر مرادآبادی




حرف آنے نہ دیا عشق کی خودداری پر
کام ناکام تمنا سے لیا ہے میں نے

قمر مرادآبادی




جس قدر جذب محبت کا اثر ہوتا گیا
عشق خود ترک و طلب سے بے خبر ہوتا گیا

قمر مرادآبادی




کسی کی راہ میں کانٹے کسی کی راہ میں پھول
ہماری راہ میں طوفاں ہے دیکھیے کیا ہو

قمر مرادآبادی




لذت درد جگر یاد آئی
پھر تری پہلی نظر یاد آئی

قمر مرادآبادی




منزلوں کے نشاں نہیں ملتے
تم اگر ناگہاں نہیں ملتے

قمر مرادآبادی




مدتوں بعد جو اس راہ سے گزرا ہوں قمرؔ
عہد رفتہ کو بہت یاد کیا ہے میں نے

قمر مرادآبادی