EN हिंदी
منزلوں کے نشاں نہیں ملتے | شیح شیری
manzilon ke nishan nahin milte

غزل

منزلوں کے نشاں نہیں ملتے

قمر مرادآبادی

;

منزلوں کے نشاں نہیں ملتے
تم اگر ناگہاں نہیں ملتے

آشیانے کا رنج کون کرے
چار تنکے کہاں نہیں ملتے

داستانیں ہزار ملتی ہیں
صاحب داستاں نہیں ملتے

یوں نہ ملنے کے سو بہانے ہیں
ملنے والے کہاں نہیں ملتے

انقلاب جہاں ارے توبہ
ہم جہاں تھے وہاں نہیں ملتے

دوستوں کی کمی نہیں ہمدم
ایسے دشمن کہاں نہیں ملتے

جن کو منزل سلام کرتی تھی
آج وہ کارواں نہیں ملتے

شاخ گل پر جو جھومتے تھے قمرؔ
آج وہ آشیاں نہیں ملتے