EN हिंदी
نظر ہے جلوۂ جاناں ہے دیکھیے کیا ہو | شیح شیری
nazar hai jalwa-e-jaanan hai dekhiye kya ho

غزل

نظر ہے جلوۂ جاناں ہے دیکھیے کیا ہو

قمر مرادآبادی

;

نظر ہے جلوۂ جاناں ہے دیکھیے کیا ہو
شکست عشق کا امکاں ہے دیکھیے کیا ہو

ابھی بہار گزشتہ کا غم مٹا بھی نہیں
پھر اہتمام بہاراں ہے دیکھیے کیا ہو

قدم اٹھے بھی نہیں بزم ناز کی جانب
خیال ابھی سے پریشاں ہے دیکھیے کیا ہو

کسی کی راہ میں کانٹے کسی کی راہ میں پھول
ہماری راہ میں طوفاں ہے دیکھیے کیا ہو

خرد کا زور ہے آرائش گلستاں پر
جنوں حریف بہاراں ہے دیکھیے کیا ہو

جس ایک شاخ پہ بنیاد ہے نشیمن کی
وہ ایک شاخ بھی لرزاں ہے دیکھیے کیا ہو

ہے آج بزم میں پھر اذن عام ساقی کا
قمرؔ ہنوز مسلماں ہے دیکھیے کیا ہو