بے نقاب ان کی جفاؤں کو کیا ہے میں نے
وقت کے ہاتھ میں آئینہ دیا ہے میں نے
خون خود شوق و تمنا کا کیا ہے میں نے
اپنی تصویر کو اک رنگ دیا ہے میں نے
یہ تو سچ ہے کہ نہیں اپنے گریباں کی خبر
تیرا دامن تو کئی بار سیا ہے میں نے
رسن و دار کی تقدیر جگا دی جس نے
تیری دنیا میں وہ اعلان کیا ہے میں نے
حرف آنے نہ دیا عشق کی خودداری پر
کام ناکام تمنا سے لیا ہے میں نے
جب کبھی ان کی جفاؤں کی شکایت کی ہے
تجزیہ اپنی وفا کا بھی کیا ہے میں نے
مدتوں بعد جو اس راہ سے گزرا ہوں قمرؔ
عہد رفتہ کو بہت یاد کیا ہے میں نے
غزل
بے نقاب ان کی جفاؤں کو کیا ہے میں نے
قمر مرادآبادی