اب ہواؤں کے دام کھلنے ہیں
خوشبوؤں کا تو ہو چکا سودا
نوین سی چترویدی
بغیر پوچھے مرے سر میں بھر دیا مذہب
میں روکتا بھی تو کیسے کہ میں تو بچہ تھا
نوین سی چترویدی
بیٹھے بیٹھے کا سفر صرف ہے خوابوں کا فتور
جسم دروازے تک آئے تو گلی تک پہنچے
نوین سی چترویدی
بھلا دیا ہے جو تو نے تو کچھ ملال نہیں
کئی دنوں سے مجھے بھی ترا خیال نہیں
نوین سی چترویدی
ہم تو اس کے ذہن کی عریانیوں پر مر مٹے
داد اگرچہ دے رہے ہیں جسم اور پوشاک پر
نوین سی چترویدی
کس کو فرصت ہے جو حرفوں کی حرارت سمجھائے
بات آسانی تک آئے تو سبھی تک پہنچے
نوین سی چترویدی
کچھ بھنور یوں اچٹ پڑے تھے جیوں
خودکشی پر ہو کوئی آمادہ
نوین سی چترویدی
مرا سایہ مرے بس میں نہیں ہے
مگر دنیا پہ دعویٰ کر رہا ہوں
نوین سی چترویدی
نئے سفر کا ہر اک موڑ بھی نیا تھا مگر
ہر ایک موڑ پہ کوئی صدائیں دیتا تھا
نوین سی چترویدی