غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں
مگر چرچا ہے جلسہ کر رہا ہوں
زمانے تجھ سے توبہ کر رہا ہوں
بدن کا رنگ نیلا کر رہا ہوں
ٹھہرنا تک نہیں سیکھا ابھی تک
ازل سے وقت ضائع کر رہا ہوں
تسلی آج بھی ہے فاصلوں پر
سرابوں کا ہی پیچھا کر رہا ہوں
مرا سایہ مرے بس میں نہیں ہے
مگر دنیا پہ دعویٰ کر رہا ہوں
غزل
غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں
نوین سی چترویدی