EN हिंदी
غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں | شیح شیری
ghanimat se guzara kar raha hun

غزل

غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں

نوین سی چترویدی

;

غنیمت سے گزارا کر رہا ہوں
مگر چرچا ہے جلسہ کر رہا ہوں

زمانے تجھ سے توبہ کر رہا ہوں
بدن کا رنگ نیلا کر رہا ہوں

ٹھہرنا تک نہیں سیکھا ابھی تک
ازل سے وقت ضائع کر رہا ہوں

تسلی آج بھی ہے فاصلوں پر
سرابوں کا ہی پیچھا کر رہا ہوں

مرا سایہ مرے بس میں نہیں ہے
مگر دنیا پہ دعویٰ کر رہا ہوں