EN हिंदी
مدحت الاختر شیاری | شیح شیری

مدحت الاختر شیر

12 شیر

آنکھیں ہیں مگر خواب سے محروم ہیں مدحتؔ
تصویر کا رشتہ نہیں رنگوں سے ذرا بھی

مدحت الاختر




ہم کو اسی دیار کی مٹی ہوئی عزیز
نقشے میں جس کا نام پتہ اب نہیں رہا

مدحت الاختر




جانے والے مجھے کچھ اپنی نشانی دے جا
روح پیاسی نہ رہے آنکھ میں پانی دے جا

مدحت الاختر




جسم اس کی گود میں ہو روح تیرے رو بہ رو
فاحشہ کے گرم بستر پر ریاکاری کروں

مدحت الاختر




خوابوں کی تجارت میں یہی ایک کمی ہے
چلتی ہے دکاں خوب کمائی نہیں دیتی

مدحت الاختر




کوچ کرنے کی گھڑی ہے مگر اے ہم سفرو
ہم ادھر جا نہیں سکتے جدھر سب گئے ہیں

مدحت الاختر




لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی
دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی

مدحت الاختر




میں نے ساحل سے اسے ڈوبتے دیکھا تھا فقط
مجھے غرقاب کرے گا یہی منظر اس کا

مدحت الاختر




مرے وجود میں شامل رہے ہیں کتنے وجود
تو پھر یہ کیسے کہوں جو کیا کیا میں نے

مدحت الاختر