نقش دل سے نہ مٹا ذرہ برابر اس کا
ثبت ہے آج بھی دیوار پہ پیکر اس کا
میں نے ساحل سے اسے ڈوبتے دیکھا تھا فقط
مجھے غرقاب کرے گا یہی منظر اس کا
عکس بھی دیدۂ قاتل میں لہو بن کے رہا
قتل ہو کر بھی جما رنگ برابر اس کا
کرب تنہائی ذرا روح سے نکلے تو سہی
منتظر ہے کوئی اس دشت کے باہر اس کا
جا چکا وہ تو سمندر کی تہوں میں مدحتؔ
بیٹھ کر ریت پہ اب نام لکھا کر اس کا
غزل
نقش دل سے نہ مٹا ذرہ برابر اس کا
مدحت الاختر