EN हिंदी
منصور آفاق شیاری | شیح شیری

منصور آفاق شیر

11 شیر

آ گرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا

منصور آفاق




بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں
شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح

منصور آفاق




بس ایک لنچ ہی ممکن تھا جلدی جلدی میں
اسے بھی جانا تھا مجھ کو بھی کام کرنا تھا

منصور آفاق




بس ایک رات سے کیسے تھکن اترتی ہے
بدن کو چاہئے آرام کچھ زیادہ ہی

منصور آفاق




ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے
کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس

منصور آفاق




پتھر کے جسم میں تجھے اتنا کیا تلاش
منصورؔ ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے

منصور آفاق




قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں
کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر

منصور آفاق




سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح

منصور آفاق




ترے بھلانے میں میرا قصور اتنا ہے
کہ پڑ گئے تھے مجھے کام کچھ زیادہ ہی

منصور آفاق