ابھی ہے دھیان کہاں وصل کے فریضوں پر
ابھی وہ کاڑھتی پھرتی ہے دل قمیضوں پر
قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں
کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر
یہی تو لوگ مسیحا ہیں زندگانی کے
ہزار رحمتیں ہوں عشق کے مریضوں پر
کسی انار کلی کے خیال میں اب تک
غلام گردشیں ماتم کناں کنیزوں پر
جلا رہی ہے مرے بادلوں کے پیراہن
پھوار گرتی ہوئی ململیں قمیصوں پر
غزل کہی ہے کسی بے چراغ لمحے میں
شب فراق کے کاجل زدہ عزیزوں پر
کہ کس دیار میں رہنا ہے کس نے کتنے دن
مسافروں کے یہ لکھا گیا ہے ویزوں پر
وہ غور کرتی رہی ہے تمام دن منصورؔ
مرے لباس کی الجھی ہوئی کریزوں پر
غزل
ابھی ہے دھیان کہاں وصل کے فریضوں پر
منصور آفاق