پتھر کے رت جگے مری پلکوں میں گاڑ کے
رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے
اتنی طویل اپنی مسافت نہیں مگر
مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے
آنکھوں سے خد و خال نکالے نہ جا سکے
ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے
یہ بھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس
رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے
مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی
کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے
بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی
خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے
پتھر کے جسم میں تجھے اتنا کیا تلاش
منصورؔ ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے
غزل
پتھر کے رت جگے مری پلکوں میں گاڑ کے
منصور آفاق