EN हिंदी
پتھر کے رت جگے مری پلکوں میں گاڑ کے | شیح شیری
patthar ke ratjage meri palkon mein gaD ke

غزل

پتھر کے رت جگے مری پلکوں میں گاڑ کے

منصور آفاق

;

پتھر کے رت جگے مری پلکوں میں گاڑ کے
رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے

اتنی طویل اپنی مسافت نہیں مگر
مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے

آنکھوں سے خد و خال نکالے نہ جا سکے
ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے

یہ بھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس
رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے

مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی
کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے

بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی
خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے

پتھر کے جسم میں تجھے اتنا کیا تلاش
منصورؔ ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے