EN हिंदी
اسے بھی ربط رہائش تمام کرنا تھا | شیح شیری
use bhi rabt-e-rihaish tamam karna tha

غزل

اسے بھی ربط رہائش تمام کرنا تھا

منصور آفاق

;

اسے بھی ربط رہائش تمام کرنا تھا
مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا

نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے
مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا

مجھے بھی کہنی تھی اک نظم اس کے لہجے پر
اسے بھی عشق میں کچھ اپنا نام کرنا تھا

بس ایک لنچ ہی ممکن تھا جلدی جلدی میں
اسے بھی جانا تھا مجھ کو بھی کام کرنا تھا

چراغ جلتے تھے جس کے اک ایک آسن میں
اس ایک رات کا کیا اختتام کرنا تھا

کوئی کتاب گرانی تھی کوئی سندیسہ
کسی طرح تو اسے ہم کلام کرنا تھا

بس ایک رات بھی گزری نہیں وہاں منصورؔ
تمام عمر جہاں پر قیام کرنا تھا