سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس
ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے
کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس
گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں
فون مردہ ہے مگر بستر بیدار کے پاس
کس طرح برف بھری رات گزاری ہوگی
میں بھی موجود نہ تھا یار طرح دار کے پاس
عبرت آموز ہے دربار شب و روز کا تاج
طشت تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے پاس
چشم لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصورؔ
سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس
غزل
سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
منصور آفاق