EN हिंदी
لطف الرحمن شیاری | شیح شیری

لطف الرحمن شیر

8 شیر

اب نہ وہ ذوق وفا ہے نہ مزاج غم ہے
ہو بہو گرچہ کوئی تیری مثال آیا تھا

لطف الرحمن




جاتے جاتے دیا اس طرح دلاسا اس نے
بیچ دریا میں کوئی جیسے کنارہ نکلا

لطف الرحمن




کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا

لطف الرحمن




میں در بدر ہوں ابھی اپنی جستجو میں بہت
میں اپنے لہجے کو انداز دے رہا ہوں ابھی

لطف الرحمن




میں خود ہی اپنے تعاقب میں پھر رہا ہوں ابھی
اٹھا کے تو میری راہوں سے راستا لے جا

لطف الرحمن




میں کہ اپنا ہی پتہ پوچھ رہا ہوں سب سے
کھو گئی جانے کہاں عمر گزشتہ میری

لطف الرحمن




تمام عمر مرا مجھ سے اختلاف رہا
گلہ نہ کر جو کبھی تیرا ہم نوا نہ ہوا

لطف الرحمن




ترا تو کیا کہ خود اپنا بھی میں کبھی نہ رہا
مرے خیال سے خوابوں کا سلسلہ لے جا

لطف الرحمن