اے مرے پاؤں کے چھالو مرے ہمراہ رہو
امتحاں سخت ہے تم چھوڑ کے جاتے کیوں ہو
لئیق عاجز
دشمنوں کو دوست بھائی کو ستم گر کہہ دیا
لوگ کیوں برہم ہیں کیا شیشے کو پتھر کہہ دیا
لئیق عاجز
کھیتیاں چھالوں کی ہوتی تھیں لہو اگتے تھے
کتنا زرخیز تھا وہ در بدری کا موسم
لئیق عاجز
کرنوں کو وہ بازار میں بیچ آیا ہے
شاید کہ کئی دن سے تھا بھوکا سورج
لئیق عاجز
میں چاہتا ہوں تعلق کے درمیاں پردہ
وہ چاہتا ہے مرے حال پر نظر کرنا
لئیق عاجز
میری تاریک شبوں میں ہے اجالا ان سے
چاند سے زخموں پہ مرہم یہ لگاتے کیوں ہو
لئیق عاجز
مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت
مری حیات ہے اک تشنہ خواب کی صورت
لئیق عاجز
قلم اٹھاؤں کہ بچوں کی زندگی دیکھوں
پڑا ہوا ہے دوراہے پہ اب ہنر میرا
لئیق عاجز
شام ہوتے ہی بجھ گیا عاجزؔ
ایک مفلس کا خواب تھا نہ رہا
لئیق عاجز